اڈیالہ جیل راولپڈی کے احکام نے تصدیق کی ہے کہ ان کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے غلام عباس کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد تاحکم ثانی موخر کرنے کا حکم نامہ موصول ہوچکا ہے اور ان کی پھانسی سزا موخر کر دی گئی ہے۔
غلام عباس سنہ 2004 سے قید ہیں۔ سنہ 2006 میں ان کو اپنے ہمسائے کے قتل کے جرم میں ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی کی عدالت سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سپریم کورٹ میں دائر کردہ پیٹیشن میں غلام عباس کی والدہ نور جہاں کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ غلام عباس ذہنی مریض ہیں اور وہ اس قابل نہیں کہ ان کو پھانسی کی سزا دی جاسکے اس لیے ان کی سزا کو موخر کر کے میڈیکل بورڈ قائم کیا جائے جو ان کی بیماری کا تعین کرے۔
جیل حکام کے مطابق سپریم کورٹ کا حکم نامہ سوموار کو دوپہر کے وقت اس وقت موصول ہوا جب غلام عباس کی والدہ اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ ان سے آخری ملاقات کر رہے تھے۔ ان لوگوں تک پھانسی کی سزا موخر ہونے کی اطلاع اسی وقت پہنچا دی گئی تھی۔
غلام عباس کی والدہ نور جہاں نے بی بی سی کو بتایا کہ جیل میں بیٹے کے ساتھ ملاقات کے دوران جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ اب ان کے بیٹے کو اٹھارہ جون منگل کو پھانسی نہیں دی جائے گی تو ’مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بتا نہیں سکتی مگر مجھے ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ حکم عارضی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان کے تمام حکام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ خود جیل جا کر غلام عباس کی حالت دیکھ لیں۔ اس کو دیکھ کر ہی ان کو پتا چل جائے گا کہ اس کی کیا حالت ہے اور اگر انھیں وہ واقعی ذہنی مریض محسوس ہو تو پھر ایک ذہنی مریض کو پھانسی پر لٹکا کر ان کو کیا حاصل ہوگا، جس کو یہ بھی نہیں پتہ چل رہا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں اپیل کرتی ہوں کہ اس کو معاف کردیں۔ چودہ سال سے جیل میں رہ کر اس نے پہلے ہی بہت سزا بھگت لی ہے۔‘
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق پنجاب محکمہ داخلہ نے پہلے پروفیسر ڈاکٹر ملک مبشر حسین کو ان کی درخواست پر جیل میں غلام عباس کا معائنہ کرنے کی اجازت دے دی تھی مگر بعد ازاں یہ اجازت واپس لے لی گئی تھی۔
غلام عباس کا معائنہ نہ کرنے کی اجازت دینے پر پروفیسر ڈاکٹر ملک مبشر حسین نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں پولیس نے اتوار کی شب ہلاک کیے جانے والے دائیں بازو کے خیالات کے حامی سوشل میڈیا کارکن بلال
خان کے قتل کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
بلال کے والد
عبداللہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلال کو اتوار کی رات کو
تقریباً 9 بجے تھانہ کراچی کمپنی کی حدود میں سیکٹر جی نائن فور میں نامعلوم افراد نے خنجروں کے وار کر کے قتل کیا۔ کراچی کمپنی تھانے کے محرر ایاز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اس قتل کی ہر پہلو سے تفتیش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس سوشل میڈیا پر بلال کی سرگرمیوں سے بھی آگاہ ہے اور اس پہلو سے بھی مقدمے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
بلال کے والد عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بیٹا جو کہ اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اتوار کی رات اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بھارہ کہو میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ موجود تھا۔
ان کے مطابق ’بلال کو ایک فون کال آئی لیکن اس نے کہا کہ وہ مہمانوں کے ساتھ مصروف ہے بعد میں بات ہوتی ہے لیکن فون پر دوسری طرف اس کے دوست فوری آنے پر اصرار کر رہے تھے۔‘
ان کے مطابق بلال دوستوں سے ملنے کے لیے اپنے چچا کو موٹرسائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کر لے گئے۔
بلال کے والد کا کہنا تھا کہ ’رات ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا جب میرا بیٹا اور چھوٹا بھائی بھارہ کہو سے نکلے اور ٹھیک ساڑھے نو بجے یعنی ایک گھنٹے بعد مجھے کال موصول ہوئی کہ بلال کو کسی نے خنجر کے وار کر کے قتل کردیا ہے۔‘
ان کے مطابق بلال کو ان کے چچا احتشام الحق کے ساتھ زخمی حالت میں پمز ہسپتال منتقل کیا گیا اور بلال کے دل پر گہرا زخم ان کی فوری موت کا سبب بنا جبکہ احتشام کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
ان کے مطابق بلال کے چچا نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے جبکہ پولیس نے بلال کا فون اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
احتشام الحق کے بیان کے مطابق انھیں جی نائن فور میں ایک نوجوان ملا اور ’بلال سے تعارف کے بعد وہ ہمیں آگے لے کر جا رہا تھا کہ قریب جھاڑیوں سے کچھ افراد نکلے اور خنجروں سے بلال پر حملہ آور ہو گئے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق بلال کے جسم پر 17 وار کیے گئے۔ احتشام الحق کے مطابق جب انھوں نے اپنا تعارف کرایا تو پھر ان پر بھی حملہ کیا گیا۔
No comments:
Post a Comment